سندھ میں سستا آٹا اسکیم بدنظمی کا شکار‘ شہری پریشان 

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت سندھ کی جانب سے رمضان المبارک میں 10 روپے فی کلوآٹا فروخت کرنے کیلئے کراچی سمیت سندھ بھر میں سستا آٹااسکیم کے آغاز پر شہریوں کوبدنظمی کے باعث شدیددشواری کا سامناکرنا پڑا جبکہ کئی مقررہ مقامات پر سستے آٹے کے اسٹالزکانام و نشان تک نہیں۔سندھ حکومت نے اعلان کیاتھا کہ صوبے بھر میں عوام کوریلیف پہنچانے کیلئے رمضان المبارک میں کراچی کے مقررہ200سے زائد مقامات پرآٹا10 روپے کلوفروخت کیا جائے گاتاہم یکم رمضان المبارک کوہی یہ اسکیم بد نظمی کا شکار ہوگئی۔کراچی کے مختلف مقامات پر مستقل اسٹالز لگانے کے بجائے ٹرکوں سے آٹا فروخت کیا گیاجس کی وجہ سے لوگوں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔انتظامیہ کی جانب سے ایک فرد کو10کلو آٹے کا ایک تھیلا 100روپے میں فروخت کیاگیاتاہم شہریوں نے شکایت کی کہ پولیس اہلکارزور زبردستی سے کئی تھیلے خریدتے رہے۔سندھ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ آٹے کی مختلف ملوں کے باہر بھی سستے داموں آٹا فروخت کرنے کے اسٹالز لگائے جائیں گے جہاں سے شہری آٹا خرید سکیں گے لیکن کراچی میں فلور ملز کے آگے اسٹالز نہیں لگائے گئے۔یوٹیلٹی اسٹور کے متعدد فرنچائز پر بھی آٹا پرانے نرخوںہی فروخت کیا جا رہا ہے ‘مالکان کا کہنا ہے کہ اسکیم کے تحت ابھی تک آٹا فراہم نہیں کیا گیا۔

کرپشن

ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی تازہ سروے رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں 179ممالک کے سروے کئے گئے گذشتہ تقریباً10سال سے دیکھ رہا ہوں کہ ڈنمارک، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، سنگاپور، سویڈن، آئس لینڈ، نیدر لینڈ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، ناروے مسلسل ہر سال کبھی کوئی پہلا نمبر حاصل کر لیتا ہے اور کوئی بھی ملک دوسے، تیسرے یا دسویں نمبر پر آجاتا ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ کہا وجہ ہے کہ ؟ ان ممالک میں کرپش یا مکر و فریب جگہ نہیں بنا پاتا؟ کیا وجہ ہے کہ گذشتہ 10برسوں سے یہ ممالک کرپن سے پاک ٹاپ 10ممالک ہیں قارئین کرام اس کی گواہی دینے میں مجھے کوئی ہچکچاہٹ نہیں کیونکہ 1984میں 15ماہ ڈنمارک میں بسر کئے اور 16سال سے امریکا میں مقیم ہوں یہ حقیقت ہے کہ ڈنمارک کی معیار زندگی امریکا کے مقابلے میں کئی درجہ بہتر ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں جمہوریت کی جڑیں مظبوط ہیں غربت کا جھونکا کبھی ان ممالک کے قریب سے نہیں گذرا ان ممالک میں جو مسائل عام لوگوں کی زندگی میں آتے ہیں اسے آسانی سے انگلی پر گن سکتے ہین یہ مسائل بھی زیادہ وسائل کی وجہ سے ان خود ساختہ بنائے ہوئے ہیں بے روز گاری کس چیز کا نام ہے؟ اصل میں ہر معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خود کام کرنا نہیں چاہتے ان ممالک میں ایسے بے کار لوگوں کو حکومت ہر ماہ بے روزگاری الاؤنس کے نام پر اچھی خاصی رقم ادا کرتی ہے جو یہ زیادہ تر نشے اور دوسرے غیر ضروری مشاغل میں اڑا دیتے ہیں میڈیکل انشورنس 100%ان ممالک میں حکومت کی جانب سے ہوتی ہے مختصر یہ کہ دنیا میں یہ ممالک دنیا کی جنت ہیں۔ 
ان آئیں ایک نظر امریکا پر ڈالتے ہیں اگر مذکورہ 10ممالک سے امریکا کا موازنہ کیا جائے تو واضح فرق نظر آئیگا اس وقت امریکا میں تقریباً 44ملین امریکن شہری میڈیکل انشورنس سے محروم ہیں امریکا میں بے روزگاری الاؤنس صرف6ماہ تک دیا جاتا ہے یہ قانون سابق صر بل کلنٹن نے بنایا تھا امریکا دنیا میں واحد سپر پاور ہے مگر اس میں میں مسائل کی بھر مار بش انتظامیہ کے دور میں سامنے آئی 9/11نے امریکا کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا کہ انغانستان اور عراق کی جنگوں کے علاوہ عالمی سطح پر دھشت گردی کے خلاف جنگ نے کیا امریکا کا شمار 179ممالک مٰں کرپشن کے نقطہ نظر سے 20ویں نمبر پر ہے جبکہ برطانیہ 12ویں نمبر پر اور اسرائیل 30ویں نمبر پر ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ انڈیا 72نمبر پر ہے اس سروے کو دیکھنے کے بعد دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کہ آخر پاکستان کا شمار گذشتہ 10سال سے ہیٹی۔منیامار، سوڈان، کانغو ڈیموکریٹک ریپبلک، عراق، کمبوڈیا، بنگلہ دیش، انگولا، اور گمبیا کے ساتھ کیوں کیا جاتا ہے؟ پاکستان ایٹمی طاقت ہے دھشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے شانہ بشانہ ہے پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان 179مملاک میں 138نمبر پر کرپٹ ملک ہے آخر اسکا ذمہ دار کون ہے؟ کہا حکومت جو حقیقی جمہوریت قائم ہونے نہیں دیتی؟ کیا اسکی یہ وجہ تو نہیں کہ کرپٹ سیاستدانوں کو معاف کر دیا جاتا ہے؟ کیا یہ وجہ تو نہیں ہے کہ پاکستان میں حکمران، مشیر اور اعلیٰ عہدیدار لش پش اسٹائل سے رہتے ہیں بلٹ پروف کاریں رکھتے ہیں؟ جبکہ انکی ناک کے نیچے 40فیصد کے قریب لوگ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ 
لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں، مہنگائی کے بوجھ نے لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، صفائی نہ ہونے کے باعث ڈنگی جیسے خطرناک وائرس معصوم لوگوں کو زندہ رہنے نہیں دے رہے مگر ان بنیادوں پر پاکستان کو دنیا کے انتہائی پسماندہ ممالک میں لا کھڑا کر کے انہتائی کرپٹ ملک قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ سراسر امتیازی سلوک ہے پاکستان کے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ امریکا جس نے اقوام متحدہ کے قوانین کو پارہ پارہ کر کے عراق پر حملہ کی جس کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں عراقی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لاکھوں اپاہج ہو گئے امریکی فوج کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نے کہا کہ عراق جنگ امریکا کے لئے ڈرائنا خواب ہے جس کا اختتام بظاہر ہوتے نظر نہیں آرہا انھوں نے کہا کہ عراق پر حملے کا فیصلہ کرنے والی امریکی قیادت نااہل، طاقت کے نشے میں چور ہے انھوں نے کہا کہ امریکن حکومت طاقت کا ناجائز مظاہرہ کر رہی ہے امریکی انتظامیہ کانگریس بالخصوص دفتر خارجہ، خفیہ اداروں کو عراق جنگ کی موجودہ صورتحال میں جو ہر زاویے سے ناکامی کی جانب جا رہی ہے اپنی اپنی ذمہ داری قبول کرنا چاہئے اور امریکی عوام کو ان تمام اداروں کا احتساب کرنا چاہئے اس سے پہلے کولن پاول جیسی شخصیت نے امریکن پالیسی پر نکتہ چینی کر کے استعفیٰ دے دیا تھا ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا گیا جس کی وجہ سے سابق وزیر دفاع رمسفیلڈ کو رخصت لینی پڑی بش انتظامیہ کے انتہائی قریبی ساتھیوں نے بش انتظامیہ کو اسلئے چھوڑ دیا کہ عراق پر حملے اور سابق صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے کا منصوبہ آغاز سے ہیں خامیوں سے بھر پور تھا بش انتظامیہ عراق میں پرائیویٹ سیکیورٹی کے ہاتھوں سینکڑوں معصوم نہتے عراقیوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کر رہی ہے مگر ابھی تک کسی کو سزا نہیں دی گئی دراقی حکومت نے ان پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیوں کو عراق چھوڑنے کے احکامات جاری کئے ہیں مگر وہ چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ 
امریکا نے جب افغانستان پر چڑھائی کی تھی اس وقت بھی درجنوں سکول، مساجد اور شہری ٹھکانوں پر گولہ باری کی گئی تھی جس کے نتیجے میں سینکڑوں، ہزاروں معصوم شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ان تمام صورتحال کے بعد بھی ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل نے امریکا کو 20ویں نمبر پر لاکر کرپٹ ملک کی لسٹ سے باہر نکال دیا۔ اب آیئے اسرائیل پر نظر ڈالتے ہیں جو ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی نظر میں کرپٹ ملک نہیں ہے اسرئیل نے 1948سے اب تک اقوام متحدہ کی 144قراردادوں کو پاؤں تلے روند ڈالا عالمی برادری کی ناک کے نیچے ہزاروں فلسطینیوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا سینکڑوں بے گناہ فلسطینی اپنے ناکردہ گناہ کی پاداش میں جیلوں میں اسرائیلی مظالم کا شکار ہو رہے ہیں اسرائیل میں خوشخالی اسلئے ہے کہ امریکا سے اسے ہر سال 3بلین سے زیادہ امداد ملتی ہے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے تحقیقی ادارے کی طرف سے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل بہت جلد غزہ کی پٹی میں زیر زمین سرنگوں کے خاتمے کیلئے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی تیاری کر چکا ہے اسرائیل کے ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں واقع سرنگوں کے ذریعہ حماس جدید ہتھیار اسمگل کر رہی ہے اور یہ ہتھیار حماس کے رضا کاروں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں جبکہ گذشتہ دنوں واشنگٹن میں امریکا اور اسرئیل کے بیچ ایک اور اہم دس سالہ دفاعی معاہدہ پر دستخط کئے گئے ہیں جس کے مطابق امریکا ہر سال اسرئیل کو 3بلین ڈالرز کا اسلحہ اور جدید دفاعی سامان فراہم کریگا یہ امداد دیگر معاہدہ کے علاوہ ہے جو اسرائیل پہلے ہی حاصل کر رہا ہے اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے انکشاف کیا ہے کہ چونکہ خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت اور عدم استحکام کی وجہ اسرائیل کی دفاع کو بہتر بنانے کیلئے اس نوعیت کا معاہدہ ضروری تھا۔ حالانکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اسرائیل ہر قسم کی جدید اسلحہ کی تیاری میں خود کفیل ہے اسرائیل ہر سال 10بلین ڈالرز سے زائد مالیت کا اسلحہ فروخت کرتا ہے حال ہی میں اسرائیل نے بھارت کو 2بلین ڈالرز کی مالیت کا جدید دفاعی سازو سامان فراہم کیا یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسرائیل کے پاس 200سے زائد ایٹم بم موجود ہیں اس کے علاوہ مختلف باوثوق ذرائع گذشتہ ایک عرصے سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسرائیل نے 1960میں مہلک ترین حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری شروع کر دی تھی اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے جینیوا پروٹوکول سمیت کسی بھی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں جس سے اسکی اسلحہ سازی پر پابندی عائد ہونے کا خدشہ ہو۔ 
اصل حقیقیت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اسوقت واحد طاقت ہے جس کے پاس جدید اسلحہ، ایٹم بم اور مہلک ہتھیار موجود ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑی طاقتون کے پروں کے نیچے اسرائیل عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے اسکے باوجود ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل نے اسرائیل کو اپنی لسٹ میں 30ویں نمبر پرک رکھتے ہوئے کرپشن سے پاک ملک قرار دیا ہے انڈیا کو 72ویں نمبر پر اسلئے رکھا گیا کہ اسکی اسرائیل اور امریکہ سے اچھے تعلقات ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کا آخر کیا معیار ہے؟ جس کی بنیادوں پر وہ کسی ملک کو کرپٹ قرار دے ان رپورٹوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے جو ترقی پذیر ممالک ہیں جن کے پاس جدید اسلحہ ہے جو دنیا میں جنگوں کی بنیاد ڈالتے ہیں جو بے گناہوں اور معصوموں کو کھلے عام ہلاک کرتے ہیں وہ کرپشن سے پاک ہیں جبکہ اسکے برعکس پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک جو اپنی دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی لسٹ میں کرپٹ شمار کئے جاتے ہیں اس تنظیم کو حقائق اور سچائی سے کام لینا چاہئیے حقائق پر پردہ نہیں ڈالنا چاہئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرانسپیرنٹ انٹرنیشنل کی رپورٹ جانبداری پر مبنی ہے اگر یہ تنظیم بڑی طاقتوں کی امداد پر چل رہی ہے تو یہ تنظیم کبھی بھی غیر جانبدارانہ رپورٹ پیش نہیں کر سکتی یہ بھی ایک کرپش کی بہت بڑی مثال ہے۔

رشوت و بدعنوانی پاکستانی معیشت کے لیے سنگین خطرہ


ایک دور تھا جب راشی اور بدعنوان افراد کو ہمارے معاشرے میں نہایت بری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، ایسے افراد سے میل ملاپ سے گریز کیا جاتا تھا‘ لوگ ان کے گھروں میں کھانا نہیں کھاتے تھے۔ بدعنوان افراد معاشرے سے کٹ کر تنہائی کا شکار رہتے تھے۔ انہیں معاشرے میں کوئی عزت نہیں دیتا تھا۔ رفتہ رفتہ ہمارے معاشرے سے اخلاقی قدروں کا صفایا ہوتا گیا۔ سیاستدانوں، بیوروکریٹس، سول اور ملٹری اہلکاروں میں بدعنوانی کا تناسب بڑھتا گیا۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں ہونے لگا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ریلوی، واپڈا، اسٹیل مل، پی آئی اے سمیت حکومت کے تمام اداروں کو کرپشن اور اقربا پروری کی دیمک چاٹ گئی ہے۔ راشی افراد اب معاشرے کے ”معززین“ میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ کرپٹ اور بدعنوان عناصر ہماری سیاست، معیشت اور تعلیم کا حصہ بن چکے ہیں۔ حال ہی میں جسٹس بھگوان داس اور نیب کی منظرعام پر آنے والی رپورٹوں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سروے رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بدعنوانی کس بری طرح سے ہمارے معاشرے میں سرایت کرگئی ہے۔ جسٹس بھگوان داس اور نیب کی رپورٹ کے مطابق آئل انڈسٹری اور حکومتی عناصر کی ملی بھگت نے قومی خزانے کو 83 ارب روپے کی رقم سے محروم کردیا۔ نیب کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر) شاہد عزیز نے سابق صدر پرویزمشرف اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں جون 2001ءسے جون 2006ءتک پٹرولیم قیمتوں کے میکنزم میں سنگین بدعنوانیوں کا ذکر تھا۔ صدر پرویزمشرف جو اپنی تقریروں میں اکثر نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ذکر کرتے نہیں تھکتے تھے‘ جب ان کی اپنی حکومت کے ذمہ داران کے متعلق کرپشن کی رپورٹ انہیں پیش کی گئی تو حیرت انگیز طور پر نہ صرف انہوں نے بدعنوان عناصر کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز کیا‘ بلکہ الٹا جنرل (ر) شاہد عزیز کو نیب کی سربراہی سے سبکدوش کردیا گیا۔ نیب کی رپورٹ بعد ازاں جسٹس بھگوان داس کو پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں اس بات کا انکشاف تھا کہ پاکستان اسٹیٹ آئل اور حکومتی ذمہ داروں کی ملی بھگت سے ہائی اسپیڈ ڈیزل کی درآمد اور فروخت میں جعل سازی اور سنگین بدعنوانیاں کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ نے جون 2001ءمیں آئل کمپنیز مشاورتی کمیٹی کو تیل کی قیمتوں کے تعین کی ذمہ داری سونپی تھی۔ قیمتوں کے تعین کا یہ سلسلہ نہایت غیر شفاف اور بدعنوانیوں سے بھرپور تھا۔ شدید بدعنوانیوں اور ملی بھگت کے نتیجے میں جہاں ایک طرف عوام کو شدید مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنا پڑا وہیں دوسری جانب آئل کمپنیوں شیل پاکستان، کالٹیکس اور پی ایس او کے منافعوں میں آسمانی شرح سے اضافہ ہوا۔ 2001ءسے 2005ءتک شیل پاکستان کے منافع میں 232 فیصد، کالٹیکس 281 فیصد اور پی ایس او کے منافع میں 232 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس سے بھی بڑھ کر اٹک ریفائنری کے منافع میں 4331 فیصد، نیشنل ریفائنری کے منافع میں 3578فیصد، پارکو کے منافع میں 1717فیصد کا بلند ترین اضافہ ہوا۔ پٹرولیم کی قیمتوں کے فارمولے کی بدولت ملکی خزانے کو 11ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ 34ارب روپے کا نقصان پریمیئم میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔ وزارت پٹرولیم آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلر کے بے تحاشا منافع کو روکنے میں ناکام رہی۔ وزارت پٹرولیم کی غفلت اور عدم توجہی نے 2004ءاور 2006ءکے درمیان آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ڈیلرز کو 9 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا۔ آئل کمپنیز مشاورتی کمیٹی نے حکومت کے ٹیکسوں خاص طور پر 15فیصد جنرل سیلز ٹیکس پر بھی کمیشن وصول کیا جس کی بدولت آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو 18ارب روپے کا فائدہ ہوا۔ اس ضمن میں عوامی اور قومی مفاد کو اس حد تک نظرانداز کیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ 40 فیصد منافع کی حد ختم کردی گئی جس سے حکومتی خزانے کو 16ارب روپے کا نقصان ہوا۔ رشوت اور بدعنوانی پاکستان میں اس حد تک عروج پر ہے کہ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں اس میں 400 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پولیس کا محکمہ سب سے زیادہ کرپٹ سمجھا جاتا ہے جبکہ پاور سیکٹر دوسرے نمبر پر ہے‘ عدلیہ کو تیسرے نمبر پر کرپٹ ترین ادارہ سمجھا جاتا تھا‘ تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اقدامات کی وجہ سے عدلیہ کا امیج بہت بہتر ہوا ہے اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑی حد تک بحال ہوا ہے۔2009ءمیں عدلیہ کا کرپٹ ترین اداروں میں 9واں نمبر ہے‘ امید ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدلیہ بدعنوان عناصر سے نجات حاصل کرلے گی۔ پاکستان میں ایک عام متوسط آمدنی کے حامل شخص کو سالانہ اوسطاً 9428 روپے رشوت دینی پڑتی ہے۔ رشوت اور بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 2009ءمیں ”قومی بدعنوانی تصورات“ پر ایک سروے کرایا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب اور بلوچستان میں رشوت میں کمی آئی ہے جبکہ سندھ میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔ سندھ کے علاوہ صوبہ سرحد میں بھی بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ صوبہ سرحد میں کرپشن میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سندھ میں 5 فیصد‘ پنجاب میں 9 فیصد جبکہ بلوچستان میں کرپشن میں 10فیصد کمی ہوئی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق این آر او نہ صرف بنیادی انسانی حقوق بلکہ اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد بدعنوانی 2007ءکی بھی خلاف ورزی ہے۔ ادارے کے مطابق این آر او نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج خراب کیا ہے۔ قومی اسمبلی 41کمیٹیاں بنا چکی ہے لیکن گزشتہ 17ماہ سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی برائے اخلاقیات اور صوبائی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے اخلاقیات قائم نہیں کی گئیں۔ بدعنوانی اور کرپشن ایسا کینسر ہے جس نے پاکستانی معاشرے سے دیانت، حب الوطنی، خدا خوفی کا اگر خاتمہ نہیں کیا تو اسے بے حد کمزور ضرور کردیا ہے۔ بدعنوانی اور رشوت سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور اس کی تصدیق ورلڈ بینک کی رپورٹ نے بھی کی ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح میں کمی اور بڑھتی ہوئی غربت کا ایک اہم سبب رشوت اور بدعنوانی بھی ہے۔ حکومت کو ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں‘ کیونکہ شفاف نظام ہی ملک میں معاشی استحکام، خوشحالی اور ترقی لاسکتا ہے۔ کرپٹ اور بدعنوان نظام کی موجودگی میں معاشی ترقی‘ اقتصادی خوشحالی اور خودکفالت کا حصول محض ایک خواب ہی رہے گا۔

جلوزئی کیمپ میں ہزاروں فرضی خیموں کا انکشاف

نوشہرہ ( اے پی پی )جلوزئی متاثرین کیمپ میں ہزاروں فرضی خیموں کا انکشاف‘ کیمپ انتظامیہ اور پاک فوج کا کریک ڈاﺅن‘ ہزاروں فرضی خیمے اکھاڑ کر اپنے قبضے میں لے لیے‘ اسکریننگ کے دوران 5048 فرضی متاثرہ خاندانوں کا انکشاف‘ فرضی خیمہ بستی کو 10 دن کی مہلت دے دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق جلوزئی کیمپ کے انچارج ظاہر شاہ نے بتایا کہ خار‘ ناواگئی‘ مامومند کے علاقے کلیئر ہو نے کے بعد کیمپ انتظامیہ اور پولیٹیکل حکام نے متاثرین کو واپس جانے کو کہا جس پر متاثرین نے عیدالفطر تک جانے سے انکار کردیا جس پر کیمپ انتظامیہ نے فوج کے ساتھ مل کر کیمپ کی اسکریننگ شروع کر دی جس میں تقریباً 4 ہزار سے زائد گھوسٹ خیموں کا انکشاف ہوا ۔ معلوم ہوا ہے کہ عرصہ 25‘ 30 سال پہلے باجوڑ سے نوشہرہ مردان اور کراچی محنت مزدوری کے لیے جانے والوں نے آپریشن راہ راست کا فائدہ اٹھا کر رجسٹریشن کرا لی ۔ اسپیشل سپورٹ گروپ کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل راشد نے میڈیا کو بتایا کہ کیمپ انچارج شہزاد علی بخاری‘ میجر عارف اللہ داد درانی کی قیادت میں کیمپ ون اور فامیلو کیمپ کی اسکریننگ کرائی گئی فیز ون سے فیز 11 تک صرف 5448 خاندان موجود ہیں اور باقی حیران کن بات یہ ہے کہ کسی نے خیمے کرائے پر دیے ہیں اور کسی نے فرضی قبضہ جما رکھا ہے ۔ بیشتر کیمپ سے باہر اپنی پرانی رہائش گاہوں میں موجود ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق 9 ہزار سے زیادہ خاندان کیمپ سے الاﺅنس اور دیگر مراعات حاصل کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں جب متاثرین سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ شدید گرمی کی وجہ سے وہ خیمہ بستی میں نہیں رہ سکتے اور انہوں نے مکانات کرائے پر لے رکھے ہیں ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت اور کیمپ انتظامیہ نے دوغلی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ متاثرین سوات کے لیے ٹھنڈا پانی اور بجلی اور ہر قسم کی مراعات موجود ہیں جبکہ متاثرین باجوڑ اور مہمند کے لیے 11 ماہ میں نہ بجلی فراہم کی گئی اور نہ ہی کوئی خوراک جبکہ بیت المال کے کارڈ میں سوراخ کیے گئے لیکن ہزاروں متاثرین کو چیک نہیں دیے گئے ۔ انہوں نے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بیت المال کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ متاثرین نے احتجاج کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ نادرا نے ابھی تک ان کے خاندانوں کی تصدیق نہیں کی اس لیے انہیں 25 ہزار کے ویزا کارڈ کی رقم نہیں ملی اور ماہانہ راشن کارڈ بھی نہیں ملا وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں ان کے ساتھ یہ رویہ کیوں اپنایا گیا ہے۔


اے اللہ… ہم جینے کے لائق نہیں
مکرمی! غازی آباد کمہارہ پور کے مین بازار میں جو اندوہناک واقعہ ہوا۔ اس کو پڑھ کر میں عجیب کیفیت سے دوچار ہوں۔ مملکت خداداد پاکستان جسے کلمہ ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پہ حاصل کیا گیا تھا جسے عالم اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے‘ جو واحد اسلامی ایٹمی طاقت کا وجود رکھتا ہے‘ جہاں پر سترہ کروڑ آبادی ہے۔ اسی مسلمانوں کے شہر لاہور کے ایک مسلمان آبادی والے علاقے ’’غازی آباد‘‘ میں کس طرح چند شیطان صفت بھیڑیوں نے دن دیہاڑے دندناتے گلی نمبر 19 میں واقع ایک گھر سے باعفت بچی کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکالا اور بیچ بازار میں لا کر اُس کے کپڑے نوچ ڈالتے ہوئے دو گھنٹے تک اس قدر بہیمانہ تشدد کیا گیا کہ وہ معصوم اپنے ہی خون میں نہا گئی۔ اس کا بھائی جو اسے بچانے کے لئے چیختا چلاتا ساتھ باہر نکلا کس طرح آخری وقت تک اپنی بہن کو بچانے کے لئے ان درندوں سے لڑتا رھا، اس کے برہنہ جسم کو ڈھانپنے اور بچانے کے لئے اپنے جسم کو ڈھال بناتا رھا… مگر وہ ہار گیا… اور اس کی بہن حسرت ویاس کی تصویر بنے قبر میں جاسوئی۔ آہ… ہم نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے والے مسلمان… حکومت، انتظامیہ اور سیاست دانوں کو چھوڑ دیں کہ سب کے سب ہمارے ہی اعمال کی ’’جزا‘‘ ہیں وگرنہ ڈبل تنخواہوں والی پولیس جو احتجاجی جلوسوں پر نہتے بوڑھوں اور خواتین تک کو نہیں بخشتی، وہاں پہنچ جاتی۔ پورے محلے اور بازار میں سے کسی ایک غیرت مند نے بھی آگے بڑھ کر ان شیطان صفت درندوں کو روکنے کی کوشش نہ کی… وہ معصوم کتنا روئی، چیخی چلائی ہوگی مگر سب بے جان لاشوں میں اپنی پراگندہ روحیں لئے یہ تماشا دیکھتے رہے… افسوس… صد افسوس… مجھے رونا آ رہا ہے۔ کاش وہاں موجود یا گھروں میں دبکے لوگوں کو ایک لمحے کے لئے بھی یہ شعور مل جاتا کہ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ یہ کیسی بیٹی تھی…؟ کس کی بیٹی تھی…؟ جسے یوں سرعام بیچ بازار رسوا کردیا گیا اور سب بے حسی کا نشان بن کر رہ گئے۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا، مار دئیے جاتے۔ تو کیا…؟ موت تو ویسے بھی ایک دن آکر رہے گی لیکن بہنوں، بیٹیوں کی عزت وناموس پر قربان ہونے والے تو خوش نصیب ہوتے ہیں۔ قوموں کا فخر ہوتے ہیں…مگر نہیں، ہم قوم کہاں رہ گئے …لوٹ کھسوٹ، بے ایمانی جھوٹ، ضمیر فروشی، فحاشی، عریانیت کا زہر سب کو سن کرچکا ہے۔ ہم تو بس بے حس رینگتے کینچوؤں کا مجموعہ ہیں… بس مجموعہ۔ آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ ’’اے اللہ ہم تیری زمین پر جینے کے لائق نہیں‘‘(شبر علی چنگیزی، 0333-3636499)

 
مغوی فرانسیسی سیاح رہا 
 
بلوچستان اسلامی انتہاپسندی کے علاوہ بلوچ عسکریت پسندی کی لپیٹ میں بھی ہے
پاکستان میں تین مہینے قبل اغوا کئے گئے ایک فرانسیسی سیاح کو جمعہ کے دن بلوچستان میں ایک نامعلوم مقام سے رہا کردیا گیا ہے۔ اس فرانسیسی سیاح کو 23 مئی کو کوئٹہ کے نواح میں ایران کے ساتھ سرحد کے قریب سے اغوا کیا گیا تھا۔
 

پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق انتونیو سپرسیلیا نامی اس غیر ملکی کو مبینہ طور پر جرائم پیشہ عناصر نے دالبدین کے علاقے تالولانڈی سے اس وقت اغوا کیا تھا جب وہ اپنے چند ساتھی سیاحوں کے ساتھ کوئٹہ سے فراسیسی نمبر پلیٹ والی ایک گاڑی میں ایران کی سرحد کی طرف سفر پر تھا۔ اِس سیاح کے ساتھ سفر کرنے والوں میں تین مرد، دو عورتیں اور دو بچے بھی شامل تھے، تاہم انہیں اغوا نہیں پاک ایران بارڈر سے کوئٹہ جانے والی سڑک
کیا گیا تھا۔

ایک سیکیورٹی افسر کے مطابق اس 41 سالہ مغوی سیاح کی بازیابی کے لئے حکومت نے فرنٹیئر کانسٹیبلری اور حساس اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی تھی، کیونکہ غالب امکان یہی تھا کہ اغوا کی اس واردات میں بلوچ عسکریت پسند یا پھر ممکنہ طور پر اسلامی انتہاپسند بھی ملوث ہوسکتے تھے۔

کوئٹہ میں حکام کے مطابق اس فرانسیسی شہری کو بہت جلد اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے کے حوالے کردیا جائے گا۔ فراسیسی سفارت خانے کی طرف سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان کو مغربی ممالک کے سفارت خانے اپنے شہریوں کے لئے بہت خطرناک ملک سمجھتے ہیں اور وہ اکثر انہیں پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں سیاحت نہ کرنے کی تلقین بھی کرتے رہے ہیں۔

 
مغوی فرانسیسی سیاح رہا 
 
بلوچستان اسلامی انتہاپسندی کے علاوہ بلوچ عسکریت پسندی کی لپیٹ میں بھی ہے
پاکستان میں تین مہینے قبل اغوا کئے گئے ایک فرانسیسی سیاح کو جمعہ کے دن بلوچستان میں ایک نامعلوم مقام سے رہا کردیا گیا ہے۔ اس فرانسیسی سیاح کو 23 مئی کو کوئٹہ کے نواح میں ایران کے ساتھ سرحد کے قریب سے اغوا کیا گیا تھا۔
 

پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق انتونیو سپرسیلیا نامی اس غیر ملکی کو مبینہ طور پر جرائم پیشہ عناصر نے دالبدین کے علاقے تالولانڈی سے اس وقت اغوا کیا تھا جب وہ اپنے چند ساتھی سیاحوں کے ساتھ کوئٹہ سے فراسیسی نمبر پلیٹ والی ایک گاڑی میں ایران کی سرحد کی طرف سفر پر تھا۔ اِس سیاح کے ساتھ سفر کرنے والوں میں تین مرد، دو عورتیں اور دو بچے بھی شامل تھے، تاہم انہیں اغوا نہیں پاک ایران بارڈر سے کوئٹہ جانے والی سڑک
کیا گیا تھا۔

ایک سیکیورٹی افسر کے مطابق اس 41 سالہ مغوی سیاح کی بازیابی کے لئے حکومت نے فرنٹیئر کانسٹیبلری اور حساس اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی تھی، کیونکہ غالب امکان یہی تھا کہ اغوا کی اس واردات میں بلوچ عسکریت پسند یا پھر ممکنہ طور پر اسلامی انتہاپسند بھی ملوث ہوسکتے تھے۔

کوئٹہ میں حکام کے مطابق اس فرانسیسی شہری کو بہت جلد اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے کے حوالے کردیا جائے گا۔ فراسیسی سفارت خانے کی طرف سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان کو مغربی ممالک کے سفارت خانے اپنے شہریوں کے لئے بہت خطرناک ملک سمجھتے ہیں اور وہ اکثر انہیں پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں سیاحت نہ کرنے کی تلقین بھی کرتے رہے ہیں۔

Followers

Video Post